آؤ بچو ۔ سنو کہانی

کہتے ہیں ایک خوبصورت باغ تھا جس کا رقبہ دس ہزار مربع میٹر تھا ۔ اس باغ میں مالٹے کے درخت لگے تھے ۔ ان درختوں پر دنیا کی بہترین قسم کے مالٹے لگتے تھے ۔ باغ کا مالک خاندان خوشحال تھا اور ہنسی خوشی دن گذر رہے تھے ۔ ایک دن کیا ہوا کہ مسلحہ آدمی آئے اور باغ پر قبضہ کر کے اس کے مالکوں پر حملہ کردیا ۔ مالکوں میں سے کچھ مر گئے اور کچھ اپنی جان بچا کر خالی ہاتھ بھاگ گئے ۔ جو لوگ بچ گئے تھے انہوں نے بہت واویلا کیا دہائی دی مگر کسی کو ان پر رحم نہ آیا ۔ آخر ان کا ایک آدمی ایک دن چوری چھپے اپنے چھنے ہوۓ علاقہ میں گھسا اور ایک درخت کو آگ لگا کر بھاگ گیا ۔ پھر کبھی کبھی یہ واردات دہرانہ شروع کر دی ۔ اس پر علاقہ میں شور مچ گیا ۔ بات وڈیرہ سائیں تک بات پہنچی ۔ وڈیرے نے فیصلہ کیا کہ باغ کا کچھ حصہ مالکوں کو واپس کر دیا جائے ۔ بڑی مشکل سے قابض ایک سو مربع میٹر یعنی کل باغ کا ایک فیصد واپس کرنے پر راضی ہوئے وہ بھی اس طرح کہ اس میں جتنے درخت تھے وہ اکھیڑ دیئے ۔ وڈیرہ سائیں اور اس کے حواریوں نے قابضوں کی دریا دلی کی اس بنیاد پر تعریف کی کہ کون لی ہوئی چیز واپس کرتا ہے ۔

بچو بات سمجھ میں آئی ؟

باغ کے مالک فلسطینی ۔ قبضہ کرنے والے اسرائیلی ۔ وڈیرہ امریکہ اور امریکہ کے چیلے حواری ۔

8 thoughts on “آؤ بچو ۔ سنو کہانی

  1. محترم اجمل صاحب،
    کہانی آپ نے سنا دی، مگر کچھ بنیادی باتوں سے مجھے اختلاف ہے۔ پہلے تو یہ تہ باغ کے مالکوں نے خود اپنے باغ کا ایک حصہ بیچا تھا۔ وہ بھی اپنے بھائیوں (ترکی سلطنت) کی مخالفت میں!یہ بھی ایک حقیقت ہے کے آنے والوں نے اپنے حصے کی زیادہ دیکھ بھال کری اور مالدار بن گئے۔ موجودہ حالات کا ذکر کرتے ہوے ماضی کو بھی یاد رکھیں۔ یہ عربوں کی عصبیت اور لالچ کی کہانی ہے۔

  2. غازی صاحب
    بصد احترام آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ نے ان موءرخین کی تحاریر پڑھی ہیں جنہوں نے اورنگزیب عالمگیر کو ظالم لالچی اور جلال الدین اکبر کو دریا دل نیک کہا ہے ۔ جبکہ اورنگزیب ٹوپیاں سی کر اور کتابیں لکھ کر اپنی روزی کماتا تھا اور اکبر سب سے اپنے آپ کو سجدہ کرواتا تھا ۔ یہی سیریل آجکل ہمارے سامنے چل رہا ہے فلسطین جموں کشمیر افغانستان اور عراق میں ۔ قابص اور ظالم جمہوریت کا دعوی کر رہے ہیں اور محب وطن مظلوموں کو دہشت گرد کہا جاتا ہے ۔ کسی حکومت میں اختلاف ک جراءت نہیں ۔جموں کشمیر کی تحریک آزادی کی مختصر روئیداد لکھ چکا ہوں ۔ انشاء اللہ جلد فلسطین کے متعلق لکھوں گا ۔

  3. Janab Ajmal Sahab,
    Roman Urdu likhnay key maazrat chahta houn.
    App nay Aurangzaib Alamgeer key bhee khoob bat key. Aurangzaib Alamgeer key daryadilli ka andaza unn kay apnay baap kay saath “Husn-e-Sulook” say hee hojata ha. Aurangzaib key support main jitnikitabian likhi gayee hain.. utni kisi baadshah kay liay nahi likhi gayeen.
    Hamara masla yeah hay kay jab kissi ko sar charahtay hain, tou uss ko farishta bana daytay hain.
    Janab, koon mazloum hay aur koun zalim, main nay iss kay baray main koi baat nahi key thee. Mera kehna sirf yeah thaa kay ghasiboun ko khud daawatday kar ghar main bulaya, aur jab oount khemay main phail ker baith gaya tou phir pachtana shrou kar dia. (Isn’ this Hypocrisy?)
    Mohtaram, sirf Lawrance of Arabia, Gertrude Bell aur General Alanbee kay halat-e-zindagee per nazar dalnay say hee andaza hoo jata hay hypocrisy ka.
    Jumla-e-moutriza: Agar aurangzaib sara din topiyan seeta thaa aur kitabain likhta thaa, tou sultanat kay kaam kab chalata tha?
    yeah shughal zill-e-subhani nay apnay bhaioun kay qatal aur baap ko aseer-e-zindan karnay kay baad shrou kia thaa yaa pehlay say hee thaa?

  4. Mohtarim Ghazi Sahab

    Who is right is best known only to Allah Soobhanohoo wa Ta’ala.

    Your idea that Jews became rich by developing land in Palestine is not based on facts because most of them were already rich when they migrated from Europe and USSR to Palestine, they were being patronized by the governments of USA, UK and USSR.

    Lawrence of Arabia was, himself, a hypocrite and a cheat. So, to believe all that he wrote is not logical.

    Any way, I presented my view and you have presented your’s. That is enough because I do not like to carry on discussion in to controversy.

    In the end thank you very much for sparing time to write on my website.

Leave a comment