بندر بانٹ اور دہشت گردی

میں نے ریاست اسرائیل کی 1896 سے 1939 تک کی تاریخ 22 نومبر کو لکھی تھی
اس سے پیشتر بنی اسراءیل کی مختصر تاریخ 14 نومبر کو لکھ چکا ہوں
فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا مقصد ایک صیہونی اڈا بنانا تھا جو وہاں سے فلسطینیوں کے انخلاء اور ان کی جائیدادوں پر قبضے کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ جوں جوں یورپ سے یہودی آتے گئے توں توں فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جاتا رہا ۔

تھیوڈور ہرستل نے 1885 میں اپنی ڈائری ميں لکھا تھا ” ہم فلسطینیوں کو اپنے ملک میں روزگار کی تلاش سے روکیں گے اور غیر ممالک میں روزگار کا لالچ دے کر جلاوطن کر دیں گے”۔ دوسرے صیہونیوں نے زیادہ راست اقدام کا فیصلہ کیا جو یہ تھا “جونہی ہم فلسطین میں اپنی ایک بستی بنا لیں گے تو ہم زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیں گے ۔ پھر جب ہم مضبوط ہو جائیں گے تو بائیں کنارے کا بھی بندوبست کریں گے”۔ اس منصوبہ میں رکاوٹ یہ آئی کہ شروع میں چند فلسطینیوں نے اپنی زمینیں بیچیں مگر باقی لوگوں نے زمینیں بیچنے سے انکار کر دیا ۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے ذرا سا ہوش سنبھلتے ہی 1947 میں فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ کے حوالہ کر دیا ۔ اس وقت تک یہودیوں کی تعداد فلسطینیوں کا ایک تہائی ہو چکی تھی لیکن یہودی فلسطین کے صرف 6 فیصد کے مالک تھے ۔یو این او نے ایک کمیٹی بنائی جس نے سفارش کی کہ فلسطین کے 56 اعشاریہ 5 فیصد علاقہ پر صرف 6 فیصد کے مالک یہودیوں کی ریاست اسرائیل بنا دی جائے اور 43 اعشاریہ 5 فیصد علاقہ میں سے بیت المقدس کو بین الاقوامی بنا کر باقی تقریبا 40 فیصد فلسطین کو 94 فیصد کے مالک مسلمانوں کے پاس رہنے دیا جائے ۔ 29 نومبر 1947 کو یو این جنرل اسمبلی نے 13 کے مقابلہ میں 33 ووٹوں سے اس کی منظوری دے دی ۔ 10 ممبر غیر حاضر رہے ۔ فلسطینیوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا اور صیہونیوں نے فلسطینی مسلمانوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے ۔

صیہونیوں کی بڑے پیمانے پر دہشت گردی ۔

صیہونیوں نے بیت المقدس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑا دیا جس میں 91 آدمی مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے ۔ ان میں برطانوی فوجی ۔ فلسطینی مسلمان ۔ عیسائی اور چند یہودی بھی شامل تھے ۔ یہ دنیا میں پہلی بارودی دہشت گردی تھی ۔ صیہونی نقطہء نظر یہاں دیکھئے ۔ برطانوی فوجیوں کی ہلاکت کی وجہ سے برطانیہ کے اندر حکومت پر فلسطین سے فوجیں نکالنے کا دباؤ پڑنے لگا ۔ اس کے علاوہ برطانوی حکومت مزید یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کے امریکی دباؤ سے بھی پریشان تھی ۔ چنانچہ برطانیہ کی حکومت نے اعلان کر دیا کہ وہ فلسطین میں اپنی حکومت 15 مئی 1948 کو ختم کر دے گی ۔

صیہونیوں نے جن کے لیڈر معروف دہشت گرد تھے فلسطینیوں پر حملے اور ان کا قتل تو پہلے ہی شروع کر دیا تھا لیکن 1948 میں اچانک فلسطین کے مسلمانوں پر بڑے پیمانہ پر ایک عسکری کمانڈو حملہ کر کے کچھ دیہات پر قبضہ کر لیا اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا ۔ امریکہ صیہونیوں کی پشت پناہ پر تھا اور ان کو مالی اور فوجی امداد مہیا کر رہا تھا ۔ اس طرح روس یورپ اور بالخصوص امریکہ کی مدد سے یہودی نے اپنی دو ہزار سال پرانی آرزو ” یہودی ریاست اسرائیل” کا 14 مئی 1948 کو 4 بجے بعد دوپہر اعلان کر دیا جو دراصل صیہونی ریاست تھی کیونکہ کئی یہودی مذہبی پیشواؤں نے اس کی مخالفت کی ۔ اگلے دن برطانیہ کے بقیہ فوجی بھی اپنی چھاؤنیاں صیہونیوں کے حوالے کر کے چلے گئے ۔ اس کے بعد مار دھاڑ روز کا معمول بن گیا ۔ صیہونی مسلحہ دستے مسلمان عربوں کی املاک پر قبضہ کرتے چلے گئے کیونکہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے تربیت یافتہ کمانڈو تھے اور انہيں امریکہ اور برطانیہ کی امداد بھی حاصل تھی ۔ یہودیوں کی دہشت گرد تنظیموں کے نام بدلتے رہے کیونکہ وہ یورپ میں بھی دہشت گردی کرتی رہیں اور دہشت گرد قرار دی جاتی رہیں ۔ مشہور نام یہ ہیں ۔ ہاگانہ ۔ اوردے ونگیٹ ۔ ارگون ۔ لیہی ۔ لیکوڈ ۔ ہیروت ۔ مالیدت ۔

چند مشہور دہشت گرد لیڈروں کے نام یہ ہیں ۔ موشے دیان جو 1953 سے 1957 عیسوی تک اسرائیل کی مسلح افواج کا چیف آف سٹاف رہا ۔ مناخم بیگن جو 1977 میں اسرائیل کا وزیراعظم بنا ۔ یتز ہاک شمیر جو 1983 میں وزیراعظم بنا ۔ ایرئل شیرون جو موجودہ وزیراعظم ہے ۔ موشے دیان کو دہشت گرد ہونے کے باوجود برطانوی فوج میں کسی خاص کام کے لئے کچھ عرصہ کے لئے بھرتی کیا گیا تھا ۔ وہ برطانوی فوج کی ملازمت چھوڑ کر پھر صیہونی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوا اور اس کا کمانڈر بن گیا ۔

عربوں کی املاک پر قبضہ کرنے کے لئے جو حملے کئے جاتے رہے ان کا کمانڈر موشے دیان ہی تھا ۔ ان دہشت گرد تنظیموں نے نہ صرف وہ علاقے زبردستی قبضہ میں لئے جو یو این او یہودیوں کو دینا چاہتی تھی بلکہ ان علاقوں پر بھی قبضہ کیا جو یو این او کے مطابق فلسطینیوں کے تھے ۔ قبضہ کے دوران جو فلسطینی مسلمان نظر آتا اسے قتل کر دیا جاتا ۔ میناخم بیگن اس دہشت گرد گروہ کا سربراہ تھا جس نے بیت المقدس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑا دیا تھا ۔ صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر وہاں مقیم چار ہزار نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کرنے کا حکم دینے والا ایرئل شیرون تھا جو ان دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا ۔

کرتے ہیں مجبور مجھے

میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ ان بڑوں کی منافقت کو اجاگر نہ کروں مگر نہ یہ بڑے چین سے بیٹھنے دیتے ہیں نہ ان سے متاءثر تبصرہ نگار ۔ اپنے تیئں ذی شعور ۔روشن خیال اور انصاف پسند تبصرہ نگار فرماتے ہیں ۔ جو ہو گیا ہمیں قبول کر لینا چاہیئے ۔ ہم طاقتور سے لڑ نہیں سکتے اس لئے جو وہ کہے یا کرے مان لینا چاہیئے ۔

میرے خیال میں جو لوگ “جس کی لاٹھی اس کی بھینس” میں یقین رکھتے ہیں ان کا علاج صرف لاٹھی ہی سے ہو سکتا ہے ۔ کم از کم قدیر احمد رانا صاحب اور اسماء کریم مرزا صاحبہ ضرور میری تائید کریں گی ۔ سنیئے ذرا غور سے ۔ او ہاں ۔ ایک منٹ ۔ اصل موضوع بعد میں ۔ مجھے یاد آیا جب ہم سکول میں پڑھتے تھے اس زمانہ میں راولپنڈی کارپوریشن کا ایک منادیہ ہوا کرتا تھا ۔ وہ کارپوریشن کے احکامات بذریعہ منادی عوام تک پہنچایا کرتا تھا ۔ اس کے پاس ٹینس کا ایک ریکٹ ہوتا تھا جس پر چمڑا چڑھا ہوتا تھا اور مخالف سمتوں میں دو ڈوریوں کے ساتھ لکڑی کے منکے لگے ہوتے تھے ۔ وہ ریکٹ کو بطور ڈگڈگی بجاتا اور کہتا ” سنیئے جناب والا ۔ کیا کہتا ہے منادی والا ۔ منادی سنیئے غور سے ۔ پھر بات کیجئے کسی اور سے” اس کے بعد وہ حکمنامہ پڑھ کر سناتا ۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا ۔

حال ہی میں ایک برطانوی تاریخ دان ڈیوڈ ارونگ (David Irving) کو آسٹریا میں گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ اس کے وارنٹ گرفتاری 1989 میں جاری ہوۓ تھے ۔ اس کا جرم یہ ہے کہ اس نے ویانا میں لیکچر دیا تھا جس میں اس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کی نازیوں کے ہاتھوں گیس چیمبرز کے ذریعہ موت کے واقعہ کے صحیح ہونے پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا کہ مرنے والے یہودیوں کی تعداد انتہائی مبالغہ آمیز ہے ۔ اس نے نام نہاد ہالوکاسٹ (Holocaust) کے صحیح ہونے پر اعتراض کیا تھا ۔ ڈیوڈ ارونگ کے لیکچر کی بنیاد ایک امریکن فریڈ لاؤخر (Fred Leucher) کی 1988 میں چھپنے والی رپورٹ ہے جو اس نے آؤش وٹس (Auschwitz) میں طویل تحقیق کے بعد لکھی تھی ۔ آؤش وٹس وہی جگہ ہے جہاں گیس چیمبرز کی موجودگی بیان کی گئی تھی

اگر ڈیوڈ ارونگ پر گیس چیمبرز یا ہالوکاسٹ سے انکار کا جرم ثابت کر دیا گیا تو اسے 10 سے 20 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے ۔ امریکہ کے صدر نے خود ایک بڑا جھوٹ ایجاد کیا اور اس کا سہارا لے کر عراق کی تہس نہس پھیر دی

ایک ڈیوڈ ارونگ ہے کہ کسی اور پر لگاۓ گئے جرم کے الزام کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو اسے مجرم کہہ کر جیل میں ڈالا جا رہا ہے اور ایک امریکہ کا صدر ہے جس کے متعلق ساری دنیا جانتی ہے کہ اس نے خود سے ایک جھوٹ گھڑا پھر اسی جھوٹ کے سہارے بلا جواز عراق پر حملہ کیا اور مزید جرم پر جرم کرتا جا رہا ہے اور اسے ابھی بھی ہیومن رائٹس کا چمپین (champion of human rights) کہا جاتا ہے ۔۔

کیا یہ منافقت کی انتہاء نہیں ؟

صیہونی ریاست کی تجویز

میں نے بنی اسراءیل کی بالکل مختصر تاریخ 14 نومبر کو پوسٹ کی تھی ۔ اب ریاست اسرائیل کی مختصر تاریخ ۔

آسٹرین یہودی تھیوڈور ہرستل یا تیفادار ہرستل بڈاپسٹ میں پیدا ہوا اور ویانا میں تعلیم پائی ۔ اس کا اصلی نام بن یامین بتایا جاتا ہے سیاسی صیہونیت کا بانی ہے ۔ اس نے 1896 عیسوی میں ایک کتاب جرمن زبان میں لکھی ” ڈر جوڈن شٹاٹ” یعنی یہودی ریاست جس کا انگریزی ترجمہ اپریل 1896 میں آیا ۔ اس ریاست کے قیام کے لئے ارجٹائن یا مشرق وسطہ کا علاقہ تجویز کیا گیا ۔ برطانوی حکومت نے ارجٹائن میں یہودی ریاست قائم کرنے کی سخت مخالفت کی اور اسے فلسطین میں قائم کرنے پر زور دیا ۔ اس ریاست کا جو نقشہ بنایا گیا اس میں دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کا سارا علاقہ شامل دکھایا گیا یعنی مصر کا دریائے نیل سے مشرق کا علاقہ ۔ سارا فلسطین ۔ سارا اردن ۔ سارا لبنان ۔ شام اور عراق کا دو تہائی علاقہ اور سعودی عرب کا ایک تہائی علاقہ ۔ اس کے بعد صیہونی کانگرس کا باسل (سوئٹزرلینڈ) میں اجلاس ہوا جس میں فلسطین میں خالص صیہونی ریاست بنانے کی منظوری دی گئی اور ساتھ ہی بین الاقوامی صیہونی تنظیم بنائی گئی تا کہ وہ صیہونی ریاست کا قیام یقینی بنائے ۔

Writes Mr M. Shahid Alam who teaches economics at a university in Boston, USA.

The goal of a Jewish state in Palestine with a Jewish population had an unavoidable corollary. As the Jews entered Palestine, the Palestinians would have to be ‘transferred’ out of Palestine. As early as 1895, Theodore Herzl had figured this out in an entry in his diary: “We shall try to spirit the penniless population across the border by procuring employment for it in the transit countries, while denying it any employment in our own country.”Others took a more direct approach: “As soon as we have a big settlement here we’ll seize the land, we’ll become strong, and then we’ll take care of the Left Bank. We’ll expel them from there, too. Let them go back to the Arab countries.” At some point, when a dominant Jewish presence had been established in Palestine, and the Palestinians had departed or been marginalized, the British could end their mandate to make room for the emergence of a Jewish state in Palestine.This plan ran into problems. The Palestinians would not cooperate: they refused to leave and very few were willing to sell their lands. As a result, in 1948, the year that Israel was created, nearly all of Palestine’s “penniless population” was still in place and more than 50 years after the launching of political Zionism, the Jewish settlers owned only seven per cent of the lands in Palestine, not the best lands either.

1896 سے ہی یورپ سے یہودی نقل مکانی کر کے فلسطین پہنچنا شروع ہو گئے اور 1897 عیسوی میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد دو ہزار کے قریب پہنچ گئی ۔ جب کہ مسلمان عربوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد تھی ۔1903 عیسوی تک یورپ سے ہزاروں یہودی فلسطین پہنچ گئے اور ان کی تعداد 2500 کے لگ بھگ ہو گئی ۔ 1914 تک مزید چالیس ہزار کے قریب یہودی فلسطین پہنچے ۔

1916 عیسوی میں مصر میں برطانیہ کے کمشنر ہنری مکماہون نے مصر سے عرب فوجی بھرتی کرنے کے لئے وعدہ کیا تھا کہ عربوں کے وہ علاقے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے آزاد کر دیئے جائیں گے ۔ برطانیہ کی عیّاری ملاحظہ ہو کہ اسی زمانہ میں خفیہ معاہدہ سائیکس پیکاٹ کیا گیا جس کی رو سے برطانیہ اور فرانس نے علاقہ کو اپنے مشترکہ انتظام کے تحت تقسیم کر دیا ۔ مزید عیّاری یہ کہ 1917 عیسوی میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتھ شلڈ نامی صیہونی لیڈر کو لکھے گئے ایک خط میں فلسطین کے اندر ایک صیہونی ریاست بنانے کے لئے کام کرنے کا وعدہ کیا ۔ جنگ عظیم کے اختتام پر 1918 عیسوی میں مصر سے بدعہدی کرتے ہوۓ فلسطین پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا ۔ لیگ آف نیشنز نے 25 اپریل 1920 کو فلسطین پر انگریزوں کے قبضہ کو جائز قرار دے دیا ۔

1918 عیسوی میں فلسطین ميں یورپ سے مزید یہودی آنے کے باعث ان کی تعداد 67000 کے قریب تھی ۔ برطانوی مردم شماری کے مطابق 1922 عیسوی میں فلسطین میں یہودیوں کی آبادی 11 فیصد تک پہنچ گئی تھی یعنی 667500 مسلمان تھے تو 82500 یہودی تھے ۔ 1930 تک برطانوی سرپرستی میں مزید 300000 سے زائد یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچائے گئے جس سے عربوں میں بے چینی پیدا ہوئی ۔

اگست 1929 میں یہودیوں اور فلسطینی مسلمانوں میں جھڑپیں ہوئیں جن میں سوا سو کے قریب فلسطینی اور تقریبا اتنے ہی یہودی مارے گئے ان جھڑپوں کی ابتداء صیہونیوں نے کی تھی لیکن برطانوی پولیس نے صیہونیوں کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا ۔ برطانیہ کا رائل کمشن جس کا سربراہ لارڈ پیل تھا نے 1937 عیسوی میں تجویز دی کہ فلسطین کو تقسیم کر کے تیسرا حصہ یہودیوں کو دے دیا جائے ۔ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی زمینی ملکیت نہ ہونے کے برابر تھی ۔ فلسطینی اس کے خلاف دو سال تک احتجاج کرتے رہے ۔ وہ چاہتے تھے کہ تقسیم نہ کی جائے اور صرف اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ اس پر برطانیہ سے مزید فوج منگوا کر فلسطینیوں کے احتجاج کو سختی سے کچل دیا گیا ۔ 1939 میں دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی اور فلسطین کا معاملہ پس منظر میں چلا گیا مگر صیہونیوں نے یورپ سے فلسطین کی طرف نقل مکانی جاری رکھی ۔

بنی اسراءیل اور اسرائیل کی تاریخ

انشاء اللہ بنی اسراءیل کی تاریخ کا صرف خاکہ پیش کر نے کے بعد ریاست اسرائیل کے تاریخی حقائق لکھوں گا جن کی بنیاد ویب پر موجود اور غیرموجود تحاریر کے علاوہ پچھلے 55 سال میں اکٹھی کی ہوئی میری ذاتی معلومات پر ہے ۔ 1932 سے دسمبر 1947 عیسوی تک میرے والد صاحب کے کاروبار کا مرکز فلسطین تھا ۔ ان کی رہائش فلسطین کے ایک شہرطولکرم اور ہیڈ آفس حیفہ میں تھا ۔ والدہ صاحبہ کبھی مصر میں میرے نانا نانی کے پاس یا فلسطین میں والد صاحب کے ساتھ رہتیں کبھی ہندوستان ميں ہمارے ساتھ ۔ میری ایک بڑی بہن 1933 میں قاہرہ (مصر) میں پیدا ہوئی اور ایک چھوٹا بھائی 1947 میں فلسطین میں نابلس کے ہسپتال میں پیدا ہوا ۔ ميں اپنے دادا دادی کے پاس ہندوستان ہی میں رہا ۔

بنی اسراءیل

حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور چھوٹے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام تھے ۔ خانہ کعبہ حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے آج سے 4000 سال قبل تعمیر کیا تھا البتہ کچھ حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسی جگہ حضرت نوح علیہ السلام نے کعبہ تعمیر کیا تھا ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے فلسطین کے علاقہ بیت المقدّس میں بھی عبادت گاہ بنائی ۔ حضرت اسحاق علیہ السلام بھی وہاں عبادت کرتے رہے مگر حج کے لئے وہ مکّہ مکرمہ میں خانہ کعبہ ہی جاتے تھے ۔

حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے ۔ اسراءیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا ۔ اسراءیل کے معنی ہیں عبداللہ یا خدا کا بندہ ۔ بنی اسراءیل ان کے قبیلہ کو کہا جاتا ہے ۔حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام تھے جو مصر کے بادشاہ بنے ۔ بنی اسراءیل میں پھر حضرت موسی علیہ السلام مصر میں پیدا ہوۓ ۔ ان کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام صحراۓ سینائی کے علاقہ میں پیدا ہوۓ جو بعد میں فلسطین چلے گئے ۔

جب حضرت داؤد علیہ السلام نے انتہائی طاقتور دیو ہیکل جالوت (گولائتھ) کو اللہ کی نصرت سے غلیل کا پتھر مار کر گرا دیا تو فلسطین کے بادشاہ صول نے حسب وعدہ ان کی شادی اپنی بیٹی مشل سے کر دی ۔ صول کے مرنے کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے ہوا ۔ جن اور ہر قسم کے جانور حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیئے تھے ۔ قبل مسیح 961 سے قبل مسیح 922 کے دوران حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنّوں کی مدد سے مسجد الاقصی اسی جگہ تعمیر کروائی جہاں حضرت ابراھیم علیہ السلام نے عبادت گاہ تعمیر کرائی تھی ۔

586 قبل مسیح میں یہ ریاست دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ جنوبی علاقہ پر بابل کے لوگوں نے قبضہ کر کے عبادت گاہ مسمار کر دی اور بنی اسراءیل کو وہاں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا ۔ اس کے سو سال بعد بنی اسراءیل واپس آنے شرو‏ ع ہوئے اور انہوں نے اپنی عبادت گاہ تعمیر کی مگر اس جگہ نہیں جہاں حضرت سلیمان علیہ السلام نے عبادت گاہ بنوائی تھی ۔ 333 قبل مسیح میں سکندراعظم نے اسے یونان کی سلطنت میں شامل کر کے بنی اسراءیل کو وہاں سے نکال دیا ۔ 165 قبل مسیح میں بنی اسراءیل نے بغاوت کر کے ایک یہودی سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ سوسال بعد یہودی ریاست پر سلطنت روم کا قبضہ ہو گیا ۔ 70 عیسوی میں یہودیوں نے بغاوت کی جسے شہنشاہ ٹائٹس نے کچل دیا اور یہودیوں کی عبادت گاہ مسمار کر کے انہیں وہاں سے نکال دیا ۔ روم کے بادشاہ حیدریاں (138-118 عیسوی) نے یہودیوں کو شروع میں بیت المقدس آنے کی اجازت دی لیکن بغاوت کرنے پر بیت المقدس کے شہر کو مکمل طور پر تباہ کر کے یہودیوں کو غلاموں کے طور بیچ کر شہر بدر کر دیا اور ان کا واپس بیت المقدّس آنا ممنوع قرار دے دیا ۔

614 عیسوی سے 624 عیسوی تک فلسطین پر ایرانیوں کی حکومت رہی جنہوں نے یہودیوں کو عبادت کرنے کی کھلی چھٹی دے دی مگر انہوں نے مسجد الاقصی میں عبادت نہ کی اور عرب عیسائیوں پر بہت ظلم کئے ۔ اس کے بعد بازنطینی حکومت آئی جس نے 636 عیسوی میں مذہبی پیشوا کے کہنے پر بغیر جنگ کے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو محافظ اور امن کا پیامبر قرار دے کر بیت المقدس ان کے حوالے کر دیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد الاقصی کی تعمیر 639 عیسوی میں اس جگہ پر شروع کروائی جہاں پر اسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کروایا تھا ۔ 636 سے 1918 عیسوی تک یعنی 1282 سال فلسطین پر جس میں اردن بھی شامل تھا مسلمانوں کی حکومت رہی سواۓ صلیبی جنگوں کے کچھ عرصہ کے ۔ اس وقت تک یہودیوں کو فلسطین سے باہر ہوۓ 1800 سال ہو چکے تھے ۔

بنی اسراءیل کے متعلق تاریخی حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بہت سے نبیوں کو قتل کیا جن میں ان کے اپنے قبیلہ کے حضرت زکریّا علیہ السلام اور حضرت یحی علیہ السلام بھی شامل ہیں ۔ حضرت عیسی علیہ السلام بھی اسی قبیلہ سے تھے ۔ ان کو بھی قتل کرنا چاہا مگر اللہ نے انہیں بچالیا اور ان کا کوئی ہم شکل قتل کر دیا گیا ۔ خلق خدا کو بھی بنی اسراءیل بہت اذیّت پہنچاتے رہے ۔